بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا || سورہ فرقان کی آیات 33 تا 43 دشمن کے محاذ اور اس کے حتمی انجام کا تجزیہ کرنے کے حوالے سے قرآن مجید کی واضح ترین عبارات میں سے ہیں۔
ان آیات کریمہ میں اللہ تعالیٰ حق کے ساتھ دشمنی کی بنیاد بننے والی منطق کو عیاں کرتا ہے اور وہ یہ کہ باطل خواہ شور و غل (میڈیا) اور طاقت کے اوزاروں میں، کتنا ہی غلبہ رکھتا ہو، بالآخر زوال پذیر اور اس کا انجام تباہی اور سقوط ہے۔ یہ آیات، نہ صرف انبیاء کے دشمنوں بارے میں تاریخی بیانات ہیں بلکہ ہر دور اور زمانے میں دشمنان حق کی شناخت کا ایک مستقل نقشہ بھی پیش کرتی ہیں۔
دشمن جھگڑنے والا ہے، نہ کہ اہل حق
آیت نمبر 33:
"وَلَا يَأْتُونَكَ بِمَثَلٍ إِلَّا جِئْنَاكَ بِالْحَقِّ وَأَحْسَنَ تَفْسِيراً؛
اور دشمن جو بھی باطل بات آپ کے خلاف لائیں گے، ہم حق کو اور بہترین تفسیر کو [اس کو توڑ دینے کے لئے] آپ کے لئے لے کر آتے ہیں"۔
اس آیت میں ارشاد ہوتا ہے کہ خدائے متعال نبی (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے خلاف دشمنوں کے ہر شبہے اور اعتراض کے مد مقابل مدلل جواب اور واضح تشریح فراہم کرتا ہے۔ محاذِ حق کا دشمن دیانت دار مکالمہ کرنے والا نہیں ہوتا، وہ حقیقت اور سچ کو چھپانے کے لئے جھگڑا اور جدال کرتا ہے۔
یہ خصوصیت آج بھی واضح طور پر نظر آتی ہے۔ صہیونیت، ذرائع ابلاغ کی کثرت، بیانیہ تخلیق کرنے اور اور الٹ پھیر کر نے ساتھ، انسانیت کے خلاف جرم کو 'جائز دفاع' اور 'قبضے' کو 'تاریخی حق' کے طور پر پیش کرتا ہے۔ قرآن خبردار کرتا ہے کہ یہ جنگ استدلال کی جنگ نہیں بلکہ دھوکے اور فریب کی جنگ ہے۔
اوپر سے نیچے گر جانا
آیت نمبر 34:
"الَّذِينَ يُحْشَرُونَ عَلَى وُجُوهِهِمْ إِلَى جَهَنَّمَ أُولَئِكَ شَرٌّ مَكَانًا وَأَضَلُّ سَبِيلًا؛
وہی لوگ جنہیں منہ کے بل جہنم کی طرف محشور کیا جائے گا، وہ برے ٹھکانے والے ہیں اور سب سے زیادہ گمراہ ہیں۔"
اس آیت میں، خُدا اُن لوگوں کے بارے میں بات کرتا ہے جنہیں قیامت کے دن زمین پر منہ کے بل گھسیٹا جائے گا۔ یہ تصویر ان لوگوں کے زوال کی علامت ہے جو خود کو دنیا میں برتر اور غالب و مسلط دیکھتے تھے۔ حق کے دشمن عموماً تسلط پسند ہیں، اپنے آپ کو دنیا کا مرکز سمجھتے ہیں اور دوسروں کی تحقیر و تذلیل کرتے ہیں۔
صہیونیت بھی اسی نسل پرستانہ منطق پر قائم ہوئی ہے: یہودی قوم کی برتری، دوسروں کو حذف کرنے اور دوسروں کے قتل کو جائز قرار دینے پر استوار ہے۔ قرآن قرماتا کہ یہ راستہ دیرپا فتح پر نہیں بلکہ ذلت آمیز زوال پر ختم ہو گا۔
دشمنوں کی تباہی کا تاریخی پس منظر
آیت نمبر 35:
"وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ وَجَعَلْنَا مَعَهُ أَخَاهُ هَارُونَ وَزِيراً؛
اور بتحقیق ہم نے موسٰی کو کتاب دی اور ہم نے ان کے ساتھ ان کے بھائی ہارون کو وزیر [اور معاون] بنایا۔"
آیت نمبر 36:
"فَقُلْنَا اذْهَبَا إِلَى الْقَوْمِ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا فَدَمَّرْنَاهُمْ تَدْمِيراً؛
پھر ہم نے کہا آپ دونوں ان لوگوں کی طرف جائیں جنہوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا ہے۔ [اس گروہ نے حق و حقیقت کے مد مقابل ضد اور تکبر سے کام لیا تو] پھر ہم نے انہیں بری طرح کچل کر تباہ کر دیا۔"
آیت نمبر 37:
"وَقَوْمَ نُوحٍ لَمَّا كَذَّبُوا الرُّسُلَ أَغْرَقْنَاهُمْ وَجَعَلْنَاهُمْ لِلنَّاسِ آيَةً وَأَعْتَدْنَا لِلظَّالِمِينَ عَذَابًا أَلِيماً؛
اور نوح کی قوم کو بھی ـ جب انہوں نے رسولوں کو جھٹلایا تو ـ ہم نے غرق کر دیا اور ہم نے انہیں لوگوں کے لئے [عبرت آموز] نشانہ بنایا، اور ہم نے ظالموں کے لئے دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔"
آیت نمبر 38:
"وَعَادًا وَثَمُودَ وَأَصْحَابَ الرَّسِّ وَقُرُونًا بَيْنَ ذَلِكَ كَثِيراً؛
اور عاد اور ثمود اور رسّ (کنوئیں) والوں کو بھی اور بہت سی قوموں کو [بھی جو] جو [قوم نوح اور اصحاب الرس کے درمیانی فاصلے میں ہو گذری ہیں] بہت سوں کو تباہ کر دیا"۔
آیت نمبر 39:
"وَكُلًّا ضَرَبْنَا لَهُ الْأَمْثَالَ وَكُلًّا تَبَّرْنَا تَتْبِيراً
اور ہم نے ہر ایک کو [ان کی ہدایت کے لئے] مثالیں [اور عبرت آموز] واقعات بیان کئے اور [جب انہوں ہدایت نہ پائی تو] ہر ایک ہم نے ہلاک کر دیا۔"
یہ آیات کریمہ، تاریخ کو گواہی کے میدان میں لاتی ہیں۔ موسیٰ اور فرعون کی قوم سے لے کر عاد، ثمود اور ان اقوام و قبائل تک جو ضد اور ہٹ دھرمی کی بنا پر انبیاء کے خلاف ڈٹ گئے۔ ان کہانیوں کو یاد کرتے ہوئے قرآن اس بات پر زور دیتا ہے کہ حق سے دشمنی بار بار دہرائی جانے والی روایت ہے اور دشمنوں کی تباہی بھی ایک سنتِ قطعیہ (اور اٹل الٰہی روایت) ہے۔
یہ آیات مؤمنوں کو دشمن کے ظاہری تسلط سے خوفزدہ نہ ہونے کا درس دیتی ہیں، جس طرح کہ ماضی کی بڑی طاقتیں زوال پذیر ہوئیں، اسی طرح آج کی ظالم طاقتیں بھی زوال پذیر ہیں۔
سچائی کو دیکھنا اور اس سے جان بوجھ کر عبور کرنا
آیت نمبر 40:
"وَلَقَدْ أَتَوْا عَلَى الْقَرْيَةِ الَّتِي أُمْطِرَتْ مَطَرَ السَّوْءِ أَفَلَمْ يَكُونُوا يَرَوْنَهَا بَلْ كَانُوا لَا يَرْجُونَ نُشُوراً؛
یقیناً وہ [مشرکین مکہ لوط اور ہود۔۔۔ کی] اس بستی پر بھی گذرے ہیں جس پر بری طرح عذاب کی بارش ہوئی، سو کیا یہ لوگ اسے دیکھتے نہیں رہتے، [وہ اسے دیکھتے رہے ہیں] لیکن [انہوں نے عبرت حاصل نہیں ہے کیونکہ] بلکہ یہ لوگ مر کر زندہ ہونے [اور جزا و سزا پانے] کی توقع ہی نہیں رکھتے۔"
اللہ جلَّ و علیٰ اس آیت کریمہ میں ایک تلخ نکتے کی طرف اشارہ کرتا ہے اور ارشاد فرماتا ہے کہ دشمنوں نے سابقہ امتوں کے عذاب کی نشانیوں کو دیکھ لیا ہے لیکن عبرت نہیں لی ہے۔ ان کا مسئلہ عدم آگاہی اور جہالت نہیں بلکہ شعوری 'بے اعتنائی'، اور 'بے رخی' ہے: حق کو دیکھنا اور اس سے شعوری طور پر، جان بوجھ کر عبور کرنا۔
آج بھی دنیا فلسطینی عوام کے خلاف صہیونیت کے جرائم کی تصاویر اور شواہد دیکھتی ہے، بچوں، عورتوں، ہسپتالوں اور کیمپوں پر ہونے والے صہیونی جرائم کی تصویریں؛ لیکن بہت سے لوگ خاموش ہیں۔ قرآن اس خاموشی کو باطل کے محاذ میں کھڑے ہونے کے مترادف سمجھتا ہے: مجرمانہ خاموشی۔
محاذ حق کی تضحیک، دشمن کی کمزوری کی علامت
آیت نمبر 41:
"وَإِذَا رَأَوْكَ إِنْ يَتَّخِذُونَكَ إِلَّا هُزُوًا أَهَذَا الَّذِي بَعَثَ اللَّهُ رَسُولاً؛
اور جب یہ لوگ آپ کو دیکھتے ہیں تو بس آپ سے مذاق کرنے لگتے ہیں [اور کہتے ہیں:] کہ کیا یہی ہے جسے اللہ نے رسول بنا کر بھیجا ہے؟!۔"
آیت نمبر 42:
"إِنْ كَادَ لَيُضِلُّنَا عَنْ آلِهَتِنَا لَوْلَا أَنْ صَبَرْنَا عَلَيْهَا وَسَوْفَ يَعْلَمُونَ حِينَ يَرَوْنَ الْعَذَابَ مَنْ أَضَلُّ سَبِيلاً؛
اگر ہم اپنے معبودوں [بتوں] پر قائم نہ رہتے تو قریب تھا کہ اس نے ہمیں ان [کی پوجا] سے ہٹا ہی دیا ہوتا؛ بہت جلد ـ جب عذاب کو دیکھ لیں گے ـ جان لیں گے کہ سب سے زیادہ بھٹکنے والا کو تھا۔"
ان دو آیات کریمہ میں پیغمبر کے دشمن پیغمبر کا مذاق اڑاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ قریب تھا کہ وہ ہمیں اپنے معبودوں سے تقریباً دور کردیتے۔ تضحیک، حق کے دشمنوں کا مستقل اور دائمی ہتھیار ہے۔ جب ان کے پاس منطق کم پڑ جاتی ہے تو وہ تذلیل و تحقیر کا راستہ اختیار کرتے ہیں۔ صہیونیت بھی مقاومت (مزاحمت) کو دہشت گردی اور استقامت کو انتہا پسندی قرار دیتی ہے۔ قرآن کا ارشاد ہے کہ یہ تضحیک و تمسخر طاقت کی علامت نہیں بلکہ خوف، گھبراہٹ اور بے چینی کی علامت ہے۔
دشمن کا سب سے زیادہ خطرناک بت
آیت نمبر 43:
"أَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلَهَهُ هَوَاهُ أَفَأَنْتَ تَكُونُ عَلَيْهِ وَكِيلاً؛
کیا تم نے اس شخص کو دیکھا جس نے اپنی خواہشات نفسانی کو اپنا معبود بنا رکھا ہے، پھر کیا آپ اس کی ضمانت دے سکتے ہیں؟!"
یہ آیت کریمہ دشمن کی کلیدی آیات میں سے ایک ہے، جس نے اپنی خواہشات کو اپنا معبود بنا لیا ہے۔ سب سے خطرناک دشمن وہ ہے جو مفادات اور اقتدار کی ہوس کو حق و باطل کا معیار سمجھ لے۔
صہیونیت اس آیت کی بہترین مثال ہے، ایک ایسا نظام جو نہ اخلاقیات کو جانتا ہے، نہ قانون کو، نہ انسانیت کو، اور جس کا واحد معبود 'بقا' اور 'تسلط' ہے۔ قرآن خبردار کرتا ہے کہ ایسے محاذ کی اصلاح نہیں ناممکن ہے اور اس کا مقدر تباہی ہے۔
ہمارے دور میں محاذِ حق کی ذمہ داری
یہ آیات صرف دشمن کے مستقبل کی خبر نہيں دیتیں؛ بلکہ محاذِ حق کی ذمہ داری کو بھی واضح کرتی ہیں۔ ثابت قدم رہنا، حقائق کو واضح اور روشن کرنا، اور مرعوب نہ ہونا۔ مؤمنین کو حق بات کہنے پر مأمور کیا گیا ہے، خواہ دشمن ہنگامہ ہی کیوں بپا نہ کرے۔ قرآن کا وعدہ واضح ہے کہ باطل مٹ جائے گا، خواہ آج یہ غالب اور مسلط ہی کیوں نظر نہ آ رہا ہو۔
بالآخر، سورہ فرقان کی آیات 33 تا 43 آج اور کل کے دشمنوں کو پہچاننے کے لئے راہنما نقشہ فراہم کرتی ہیں۔ صہیونیت اپنی تمام تر فوجی اور ابلاغی طاقت کے ساتھ اسی راستے پر گامزن ہے جس پر ماضی کے فرعون اور سرکش حکمران گامزن رہے تھے۔
قرآن صریحاً بیان کرتا ہے کہ یہ راستہ خوشایند نہیں ہے، اور اس کا انجام خوشگوار نہیں ہے۔ محاذِ حق، اگر مضبوطی سے کھڑا رہے اور ظواہر سے دھوکہ نہ کھائے، تو زمین کا وارث بنے گا وعدہ الٰہی کے عین مطابق؛ ایسا وعدہ جو تاریخ نے بارہا ثابت ہو چکا ہے۔
قرآن مجید کے صفحہ 363 پر موجود ان آیات کی تلاوت دیکھیں اور سنیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تحریر: مہدی احمدی
ترجمہ: ابو فروہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110
آپ کا تبصرہ